وقف ایک ایسا عظیم اسلامی ادارہ ہے جو نہ صرف دینی و روحانی وابستگی کا مظہر ہے بلکہ ایک مکمل فلاحی نظام کی بنیاد بھی ہے۔ وقف کا مقصد صرف عبادت گاہیں تعمیر کرنا نہیں، بلکہ ایک ایسا معاشرتی نظام قائم کرنا ہے جس میں تعلیم، صحت، روزگار، کفالتِ یتامیٰ و مساکین، مسافروں کی امداد اور علمی ترقی جیسے شعبے شامل ہوں۔
لیکن افسوس کہ آج اگر ہم اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وقف کا اصل مفہوم کہیں کھو سا گیا ہے۔ آج وقف جائیدادیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں، یا قبضوں کی نذر ہو گئی ہیں، یا کرپشن کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ اس صورتِ حال کے ذمے دار صرف بیرونی طاقتیں یا حکومتیں نہیں — بلکہ خود مسلم معاشرہ بھی اپنی کوتاہیوں، غفلتوں اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے اس زوال کا حصہ ہے۔
1. مقصدِ وقف سے انحراف
وقف کا اصل مقصد "فی سبیل اللہ" خدمات فراہم کرنا تھا۔ مسلمانوں نے صدیوں تک مدرسے، کتب خانے، اسپتال، کارواں سرائے اور غریب خانوں کی بنیاد وقف کی برکت سے رکھی۔ مگر آج وقف کو صرف "پراپرٹی" سمجھا جا رہا ہے، اور متولی حضرات اسے اپنی ذاتی جاگیر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ایسے میں وقف کا اصل مقصد — انسانوں کی خدمت اور اللہ کی رضا — کہیں گم ہو گیا ہے۔
2. انتظامی کوتاہیاں اور بدعنوانی
اکثر وقف ادارے انتظامی لحاظ سے کمزور ہیں۔ وقف جائیدادوں کا ریکارڈ یا تو مکمل نہیں ہے یا پرانا اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ زمینوں کی حد بندی، دستاویزات کی حفاظت، کرایہ داری کا نظام، سب کچھ بدنظمی کا شکار ہے۔ متولی حضرات کی تقرری میں سفارش اور رشوت کا عمل دخل بڑھ چکا ہے۔
وقف بورڈز میں شفافیت کا فقدان ہے۔ نہ آڈٹ کی پابندی ہے، نہ محاسبہ، نہ کارکردگی کا کوئی معیار۔
3. قانونی بے خبری اور بے عملی
اکثر مسلمانوں کو وقف قوانین کا علم ہی نہیں۔ وقف ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے، مگر جب جائیداد پر قبضہ ہوتا ہے یا کسی طرف سے غیر قانونی دعویٰ آتا ہے، تو اکثر لوگ وقت پر عدالت سے رجوع نہیں کرتے۔
مسلم قیادت نے بھی وقف کے قانونی دفاع کو سنجیدگی سے نہیں اپنایا۔ کئی وقف جائیدادیں عدالتوں میں لڑائیوں کی نذر ہو گئیں کیونکہ ان کے لیے بروقت قانونی تیاری نہیں کی گئی۔
4. قوم میں شعور کی کمی
اکثر مسلمان وقف کو صرف "مذہبی چیز" سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ ایک معاشرتی و اقتصادی ادارہ ہے۔ دینی قیادت اور علما نے اس پر بہت کم روشنی ڈالی، جب کہ تعلیمی اداروں میں بھی وقف کا مضمون یا شعور شامل نہیں۔
یہ شعور قوم میں بیدار نہیں کیا گیا کہ وقف جائیداد قوم کی امانت ہے، نہ کہ کسی خاندان یا فرد کا ورثہ۔
5. وقف کا غیر پیداواری استعمال
وقف جائیدادوں کا استعمال اگر صرف کرایہ یا بند عمارتوں کی حد تک محدود رہے، تو نہ قوم کو فائدہ ہوگا اور نہ دین کو۔ ہمیں ان جائیدادوں کو استعمال میں لا کر پیداواری، تعلیمی، طبی، اور فلاحی منصوبے شروع کرنے چاہئیں تھے۔
بدقسمتی سے بیشتر جائیدادیں نہ کام آ رہی ہیں، نہ منافع دے رہی ہیں، اور نہ قوم کی ترقی میں کوئی کردار ادا کر رہی ہیں۔
نتائج:
وقف پر عوام کا اعتماد کم ہو رہا ہے
جائیدادیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں
حکومتیں آسانی سے ان پر قبضہ کر رہی ہیں
قوم ایک عظیم ورثے سے ہاتھ دھو رہی ہے
حل اور تجاویز:
1. ڈیجیٹل ریکارڈنگ: ہر وقف جائیداد کا مکمل ریکارڈ تیار ہو، GPS اور نقشہ جات سمیت۔
2. شفاف بورڈز: متولیوں کی تربیت اور تقرری شفاف ہو، سیاست سے پاک ہو۔
3. قانونی تیاری: ہر ریاست میں وقف سے متعلق وکلا کی ٹیم ہو جو بروقت مقدمات لڑے۔
4. عوامی شعور: جمعہ کے خطبے، مدارس، اور سوشل میڈیا کے ذریعے شعور بیدار کیا جائے۔
5. پیداواری ادارے: وقف پر اسکول، ہاسپٹل، ووکیشنل سینٹر، یا چھوٹے کاروبار قائم کیے جائیں۔
وقف اللہ کے نام پر ایک مقدس قربانی ہے۔ اگر ہم نے خود اس کی قدر نہ کی، تو کوئی دوسرا اس کے تحفظ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
اب بھی وقت ہے ہم سنبھل جائیں، بیدار ہو جائیں، اور وقف کو پھر سے ایک زندہ، فعال، اور بابرکت ادارہ بنا دیں۔