
زبان کسی قوم کی تہذیب، تاریخ، تمدن اور فکری شعور کی مظہر ہوتی ہے۔ زبانیں نسلوں کی یادداشتوں کو محفوظ رکھتی ہیں اور تہذیبوں کے ماضی و حال کو جوڑنے والے پل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو زبان بھی ایک ایسی ہی تہذیبی زبان ہے، جو محض ایک ذریعۂ اظہار نہیں بلکہ برصغیر کی اجتماعی تاریخ، مشترکہ ثقافت اور میل جول کے تمدن کی ترجمان ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں اس زبان کو محض ایک مذہب یعنی اسلام اور مسلمانوں سے منسلک کر کے محدود کرنے کی کوشش کی گئی، جس سے نہ صرف اس کی وسعت کو نقصان پہنچا بلکہ ہندوستانی معاشرتی ہم آہنگی کو بھی زک پہنچی۔
اردو کے خلاف اس تعصب کی ایک تازہ مثال اس وقت سامنے آئی جب مہاراشٹر کے اکولہ ضلع میں ایک سرکاری بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو بنیاد بنا کر پاتور نگر پالیکا کی ایک سابق کونسلر ورشا تائی نے نگر پالیکا کے بورڈ پر اردو میں نام لکھنے کو بنیاد بنا اعتراض دائر کیا ۔ یہ اعتراض ہائی کورٹ سے رد کردیا گیا تو محترمہ نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں داخل کردیا جہاں سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اردو ایک ہندوستانی زبان ہے، اور اسے کسی مذہب سے منسلک کرنا دانشمندی نہیں۔ عدالت کا یہ بیان محض قانونی رائے نہیں، بلکہ ایک فکری اور تہذیبی مؤقف کی ترجمانی کرتا ہے جو زبان اور مذہب کو خلط ملط کرنے کے خطرناک رجحان کو پروان چڑھاتا ہے۔
اردو کی پیدائش مغلیہ دور میں ہندوستان کی زمینی سطح پر ہوئی۔ یہ زبان دراصل مختلف لسانی عناصر کی آمیزش سے وجود میں آئی۔ فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت، برج بھاشا اور کھڑی بولی جیسے عناصر نے اردو کے مزاج کو ترتیب دیا۔ "لشکری زبان" کہلانے والی اردو میدانِ جنگ کے سپاہیوں کی بول چال سے شروع ہو کر دربار، شاعری، فلسفہ، نثر، ڈرامہ اور صحافت تک پہنچی۔ اس کی نمو میں نہ صرف مسلمان صوفیوں، علما اور شعرا نے حصہ لیا، بلکہ ہندو سنتوں، ادیبوں، پنڈتوں اور دانشوروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اردو نے جلد ہی شمالی ہند کے ساتھ ساتھ دکن، بہار، پنجاب، گجرات اور بنگال میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ لکھنؤ اور دہلی اردو تہذیب کے دو اہم مراکز بنے، جہاں اس زبان نے ادب، موسیقی، لباس، اخلاقیات، اور رہن سہن کے طور پر ایک مکمل تمدنی شناخت اختیار کر لی۔
اردو زبان نے ہمیشہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے مابین مکالمے اور میل جول کو فروغ دیا۔ اس زبان میں جہاں اسلامی تعلیمات اور صوفیانہ افکار کا بیان ہوا، وہیں ہندو دھرم کی روایات، بھگتی تحریک کی صدائیں، رامائن، مہابھارت اور ویدوں کی تشریحات بھی اردو میں پیش کی گئیں۔ اردو میں سنسکرت الفاظ کی بہتات، ہندو دیوی دیوتاؤں کے ذکر، اور مقامی رسومات کی جھلک موجود ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کبھی بھی ایک خاص مذہب تک محدود زبان نہیں رہی۔ اردو کے نامور مصنفین اور شعرا میں ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جن کا تعلق غیر مسلم گھرانوں سے تھا، مگر ان کی خدمات اردو کی شناخت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ منشی پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، جگن ناتھ آزاد، رتن ناتھ سرشار اور فراق گورکھپوری جیسے افراد نے اردو کو محض ایک ادبی زبان نہیں بلکہ ایک فکری اور تہذیبی زبان بنا دیا۔
آزادی کے بعد لسانی سیاست کے زیرِ اثر اردو کو دانستہ طور پر ایک مذہبی شناخت سے جوڑ کر محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض ریاستوں میں اردو کے تعلیمی ادارے بند کیے گئے، اردو اخبارات کو سرکاری اشتہارات سے محروم رکھا گیا، اور اردو بولنے والوں کو حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش ہوئی۔ اردو میڈیم تعلیم کو کم تر سمجھا گیا، اور بچوں کو اس زبان سے دور رکھنے کی مہم چلی۔ یہ تمام عوامل اردو دشمنی سے زیادہ ایک مخصوص سیاسی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں، جو ثقافتی تنوع کے بجائے تہذیبی یکسانیت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنا نہ صرف تاریخی نادانی ہے بلکہ یہ ہندوستانی آئین کی روح کے بھی خلاف ہے، جو ہر شہری کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا حق دیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے جب اردو زبان کے خلاف رویے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا کہ "اردو کسی مذہب کی جاگیر نہیں، یہ ہندوستان کی زبان ہے"، تو درحقیقت یہ ایک قومی شعور کی بازگشت تھی۔ عدالت کا یہ فیصلہ اردو زبان کے آئینی مقام، ثقافتی وراثت اور اجتماعی شناخت کو تسلیم کرنے کا اعلان تھا۔ اس فیصلے نے نہ صرف اردو بولنے والوں کے اعتماد کو بحال کیا بلکہ سماجی سطح پر ایک مثبت پیغام بھی دیا کہ زبانوں کی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
آج اردو ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف اسے تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور دوسری طرف جدید تعلیم، سائنس، اور ٹیکنالوجی میں اس کی شرکت محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں کی کمی، نصابی مواد کی قلت، اور اساتذہ کی عدم دستیابی جیسے مسائل نے اردو کو پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ تاہم، خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اردو کا ادبی سرمایہ، فلمی دنیا میں اس کی مقبولیت، اور سوشل میڈیا پر اس کا دوبارہ احیا، ایک نئی امید پیدا کرتے ہیں۔ اردو کے چاہنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شاعری، نثر، ریختہ، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اس زبان کو فروغ دے رہی ہے۔
اردو زبان کو مذہب سے جوڑنا دراصل اس کی ہمہ گیری سے انکار کے مترادف ہے۔ یہ زبان ہندوستانی عوام کی مشترکہ شناخت کا حصہ ہے۔ اردو نہ مسلمانوں کی ہے، نہ ہندوؤں کی — یہ ہندوستان کی ہے، ہندوستانیوں کی ہے، اور اسی سرزمین کی کوکھ سے جنم لینے والی زبان ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے، اور اسے ایک زندہ، ترقی پذیر، اور جدید زبان کے طور پر اپنایا جائے۔ تعلیمی نظام میں اردو کو مساوی مقام دیا جائے، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور عوامی سطح پر اس کے تئیں پیدا کردہ تعصبات کو ختم کیا جائے۔
اردو محض ایک زبان نہیں، ایک تہذیبی پیغام ہے — رواداری، محبت، اور اجتماعیت کا پیغام۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسے مذہب کے خول سے نکال کر اس کے اصل دائرے میں دیکھیں اور اس ورثے کو فخر سے اپنائیں۔