قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ " اے ایمان والو! تم پر اس طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ "
( سورۃ البقرہ، 2، 183)
لہٰذا روزے کی فرضیت کا انکار کرنے والا ( سب مسالک کے نزدیک متفق علیہ) کافر ہوجاتا ہے، اور روزہ ترک کرنے والا کافر تو نہیں ہوتا مگر یہ عمل کافروں جیسا ہے، اور فاسق و سخت گنہگار اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، روزہ ترک کرنے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کے ایک دن کا بھی روزہ بغیر رخصت و بغیر مرض کے افطار کیا ( یعنی نہیں رکھا) تو زمانے بھر کا روزہ بھی اس کی قضاء نہیں ہو سکتا، اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے،
( ترمذی شریف، ج 2، ص 175 ،حدیث نمبر 723)
یعنی وہ فضیلت جو رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کی تھی کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا، چاہے پوری زندگی روزہ رکھتا رہے،
دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو،
( صحیح خزیمہ، ج 3، ص 190، حدیث نمبر 1886)
تیسری جگہ ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کے روزے نہیں رکھیں تو وہ شخص شقی یعنی بدبخت ہے،
( معجم اوسط، ج 3، ص 62، حدیث نمبر 3871)
چنانچہ احادیث کی روشنی میں اسلام کی یہ ثقافت نمایاں ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے کتنی اہمیت کے حامل ہیں اور جو اسے فراموش کرے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور اللہ کے عذاب کا حق دار ہوگا،
جیسا کہ رمضان المبارک کی آمد کا سماں چاروں طرف اپنے آپ خوشیاں نچھاور کر رہا ہے اور مسلمان آب و تاب کے ساتھ اس مبارک مہینے کے چشم انتظار ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کر کے خوب ساری نیکیاں بٹور کر اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکیں ،
چنانچہ جہاں ایسے اشخاص بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑا کشادہ رزق عیش و آرام کے سامان و لوازمات اے سی روم ، ائیرکنڈیشن روم وغیرہ جیسی نعمتوں سے نوازا ہے تو وہ خدا کی ان نعمتوں کا استعمال کر کے بسہولت اطمینان سے اپنی آفس، بنگلے وغیرہ میں روزہ رکھ لیتے ہیں مگر ان مالداروں کو سوچنا چاہیے کہ وہی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں.
جو مزدوری کرتے ہیں لہٰذا عمومی اور مجموعی طور پر اول درجے میں تو یہی ہے کہ ہر سرمایہ دار کو اپنے ماتحتوں نوکروں و مزدوروں ( کاریگروں) کے ساتھ رمضان المبارک کے مہینے میں حتی المقدر رعایت و نرمی کا معاملہ کرنا چاہیے خواہ سرمایہ دار جس فیلڈ سے مالک ہوں یعنی چاہے کسی کمپنی کا بوس ہو یا کسی فیکٹری وغیرہ کا مگر شہر مالیگاؤں کے سیٹھوں سے خصوصیت سے درخواست ہیکہ وہ مالیگاؤں جیسے شہر میں اکثریتی طبقہ سخت محنت کی مزدوری سے منسلک ہیں یعنی پاور لوم سے خصوصاً جن کی پہلی لسٹ ہے، دن ڈیوٹی میں لوم چلانے والے، حمال، مقادم، تراشن بھرنے والے، سائزر، گانٹھ پریس میں کام کرنے والے، ورکشاپ وغیرہ ،
جیسے مزدور شمار ہوتے ہیں جن کیلئے روزہ رکھنا دیگر لوگوں بلکہ مزدوروں کے بھی مقابلے میں بہت مشکل و کٹھن مسئلہ ہوتا ہے، جیسے جس کی دوسری لسٹ ہے کہ رات میں لوم چلانے والے، گھڑی لگانے والے ( میتھا )، مینیجر، سائزنگ میں کاؤنٹر پر کٹ سٹ لکھنے والے، رات میں بھیم جوڑنے والے رچھ بھرنے والے، مستری، ٹیکسٹائل والے وغیرہ یہ افراد اپنا کام کاج کرتے ہوئے بھی کچھ بھوک پیاس برداشت کر کے بہرحال روزہ رکھ لیتے ہیں یا رکھ سکتے ہیں مگر جو پہلی لسٹ مزید سخت محنت کرنے والوں کی بیان کی گئی ان کا اپنے کام کاج کرنے کے ساتھ روزہ رکھنا ( موجودہ دور کے کمزور ایمان کے ساتھ) بہت مشکل ہے، مزید یہ کہ بعضِ کارخانے تو پترے کے شیڈ میں بنے ہوئے ہوتے ہیں جس میں گرمی کی شدت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی رہتی ہے اور بیچارہ مزدور بھوک پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے نٹھال ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ یہ ڈیوٹی خصوصاً دن میں لوم چلانے والوں کی 12 بارہ گھنٹے کی کھڑی و کڑی ہوتی ہے، اب آیا یہ کہ صبح 7 بجے سے مسلسل لوم سے لڑنے والے مزدور کی حالت ظہر تک کیسی ہو جائے گی؟
اس کا اندازہ لگانے کیلئے آپ خود ایک بار روزہ رکھ کر ڈیوٹی کر کے دیکھیں تو آپ کو بخوبی اندازہ لگے گا ان شاءاللہ، اور یہ صورت حال پورے مہینہ ہے کوئی دن دو دن کی بات نہیں اس لئے ہم ذرا کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ اکثر سیٹھوں کا جو کاریگروں کے ساتھ راویہ ہوتا ہے اسے لکھ کر ہم اپنی تحریر چغلی و غیبت آلودہ کر کے عیب دار نہیں بنانا چاہتے، جو احباب خصوصاً مزدور بھائی پاور لوم سے منسلک ہے اسے بخوبی پتہ ہے ہمیں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، البتہ یہ بات الگ ہے کہ ہر کوئی اور ہر جگہ ایک جیسا معاملہ نہیں ہوتا، مگر جب بات کہی جاتی ہے تو وہ اکثریت میں پائے جانے والی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہی جاتی ہے، اس لئے مزدور اگر روزے کی وجہ کچھ آرام سے کام کریں یعنی تھوڑا لیٹ لیں، ظہر کی نماز میں آرام کر لیں یا گھنٹے دو گھنٹے آرام کر لیں وغیرہ تو سیٹھ حضرات اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے برداشت نہیں بلکہ خوش دلی سے درگزر کریں،
فی لوم پانچ سے دس میٹر کم ہونے سے کوئی بہت زیادہ نقصان نہیں ہو جاتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو حدیث میں اس مہینے میں مومن کے رزق میں بڑھانے کا ذکر ہے لہذا اس مہینے میں دنیا داری اور کمانے کمانے کی ہوڑ کو بالائے طاق رکھ کر ایمان و یقین کی بھی بات کریں کیونکہ حدیث شریف میں اس مہینے میں غمخواری ( درگزر، پیار محبت) کا بھی ذکر ہے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بھی یقین رکھیں جناب! ہر چیز ظاہری اسباب سے ہونے کا یقین نہ رکھیں، آپ اللہ تعالیٰ کیلئے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے پیش نظر مزدوروں کے ساتھ معاؤنت کا معاملہ کریں تو ان شاءاللہ، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور شان سے آپ کے رزق کے اضافے کا ایسا ظہور فرمائیں گے کہ خود آپ کی عقل حیران ہو جائے گی، کیونکہ رزق دینے والی ذات اللہ رب العالمین کی ہے، آپ اللہ تعالیٰ کیلئے مزدوروں کے ساتھ درگزر اور نرمی اور اپنا جان مال قربان کر کے دیکھیں، یقیناً اللہ رب العزت بہترین بدلہ دینا والا ہے،
ورنہ اگر آپ اپنی سختی برقرار رکھو گے کہ لوم بند نہیں ہونا چاہیے کام کا نقصان نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ تو پھر نتیجتاً یہ ہوگا کہ یہ پہلی لسٹ والے مزدور بھائی مجبوراً روزہ نہیں رکھیں گے ( جیسا کہ اسی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے) ، اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہو کر رمضان گزارے گے،
خوب یاد رکھنے کی چیز ہے کہ رمضان المبارک کی خیر و برکات اور عید الفطر کی خوشیاں صرف روزہ داروں اور نماز و تلاوت وغیرہ عبادات انجام دینے والوں کیلئے ہے، نماز، روزہ چھوڑ کر رمضان کی برکات کی حاصل ہونے کی امید لگانا محض حماقت ہے بلکہ خیر و برکت تو کیا حاصل ہوگی الٹا عذاب و خسارے کے مستحق ہوں گے، اور اگر مزدور بھائی محض آپ کی سخت ڈیوٹی کے خوف سے کہ ڈیوٹی میں کمی بیشی ہوگی تو سیٹھ برداشت نہیں کرینگا تو میں سمجھتا ہوں آپ بھی اس کے جرم میں شانہ بشانہ شامل ہوں گے.
جس کے جو بھاری بھرکم نقصانات دنیا و آخرت میں اٹھانے پڑے گے اس کا شاید آپ کو اندازہ نہیں ہے، یعنی کارخانے میں آگ لگ جانا، پاور میٹر بل کے مسائل کھڑے ہو جانا، مارکیٹ میں نقصان ہو جانا وغیرہ بے شمار طریقوں سے دونوں جہانوں میں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، اس کے بالمقابل اگر آپ مزدوروں کا تعاؤن کریں گے تو شاید آپ کا مزدور بھائیوں کی نیکیوں میں بھی حصہ لگ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے وہاں سے آپ کے رزق میں اضافہ فرمائے گے جہاں سے آپ کا گمان بھی نہیں گزر سکتا ، اس لئے اب آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ نیکیوں میں حصہ لے کر غیب سے اپنے رزق میں اضافے کا سبب بنتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق؟
اس لئے اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اللہ تعالیٰ کی قدرت جو ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے یقین رکھیں، مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی اجاگر کرنا ضروری ہے کہ جہاں سیٹھوں کو واعظ و نصیحت کی جا رہی ہے وہی مزدور بھائیوں کو بھی چاہیے کہ سیٹھ کے سہولت فراہم کرنے پر وہ بھی روزہ نہ چھوڑیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہر ایک کیلئے ہے اور اس کی گرفت بھی بڑی سخت اور کارآمد ہے، اگر دانستہ و نادانستہ طور پر ہماری تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہوگی تو ہم صدق دل سے معافی چاہتے ہیں، اور روزہ رکھنے کی وجہ سے رزق میں نفع نقصان کی اتنی جھنجھٹ میں دبلا ہونے سے بہتر " سو سونار کی ایک لوہار کی" ہے کہ آپ سال کے گیارہ مہینے طبعیت سے کمائے اور ایک مہینہ اللہ تبارک تعالیٰ کیلئے رکھیں .جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا بھی ایسا ہی ہے کہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے مگر جن لوگوں کا ( کاروباری ) سیزن ہی رمضان کا مہینہ ہو تو وہ پھر بھی رمضان المبارک کا اتنا تو پاس و لحاظ ضرور رکھیں کہ رمضان المبارک ہمارے لئے برکتوں کی بجائے عذاب نہ بن جائے،
ویسے حقیقی ایمان اور صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین و شریعت سے سچی محبت یہ ہوتی کہ ہم باوجود سیزن کے بھی اپنا سب کچھ اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے قربان کر دیتے جیسا کہ بندے کا ایک دوست ہے جو پیشے سے حلوائی ہے یعنی سینڈوچ، وڑا، جلیبی، بھجیہ وغیرہ کی مستقل دوکان ہے اور دوکان اچھی خاصی چلتی بھی ہے مگر صرف اللہ رب العالمین کی رضا و خوشنودی اور رمضان المبارک میں یکسوئی کے ساتھ عبادات سرانجام دینے اور رمضان کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کی غرض سے پورا رمضان دوکان بند کر دیتا ہے اور اعتکاف میں بیٹھ جاتا ہے جبکہ سینڈوچ وڑے کی دوکان رمضان میں رات میں کتنی چلے گی آپ تو بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں مگر میرے دوست کو معلوم ہے کہ جہاں یہ رمضان دنیاوی پیسے کمانے کا سیزن ہے وہی یہ دنیا اور اس دنیا کی متاع بھی عارضی ہے اور مستقل باقی رہنی والی چیز تو آخرت ہے اور اسی آخرت کو بنانے کا بھی سیزن یہی رمضان المبارک ہے وما علینا الا البلاغ وما توفیقی الا باللہ
جوائن ٹیلی گرام چینل
https://t.me/www_Darul_Ifta_Wal_Irshad_COM