( اعتبار نیوز) قارئین یہ مضمون دراصل ایک تقریری مقابلہ کے لیے میرے طالب علمی کے زمانہ میں میری پیاری امی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے مجھے لکھ کر دیا تھا اور میں نے اس مقابلہ میں اس تقریر کو پیش کرتےہوے انعام دوم حاصل کیا تھا میں نے ضروری سمجھا کہ 17 رمضان المبارک کا دن جو جنگ بدر کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جاے گا اس تقریر کو شائع کیا جاے ۔)
مضمون نگار : عالمہ عترت فاطمہ (والدہ محترمہ)
مقرر :محمد سرور شریف ابن یوسف شریف
معلم مویدالمسلمین پرائمری اسکول پربھنی
9960451708
قارئین ! آپ ہم بحیثیت مسلمان اس بات کا ادارک و شعور رکھتے ہیں کہ سریہ اور غزوہ میں نمایاں فرق ہے۔ غزوہ سے مراد وہ فوجی دستہ جس کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہوں چاہے جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ ان میں کچھ مشہور غزوات کے نام یہ ہیں۔ غزوہ سویق ، غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خیبر، غزوہ موتہ، غزوہ حنین ، غزوہ تبوک، غزوہ طائف وغیرہ۔
تاریخ اسلام میں غزوات اور سرایا کی نمایاں اہمیت ہے۔ اور ہر غزوہ و سریہ سے اسلام کے مجاہدوں کو ایک نیا درس، ایک نئی روشنی ملی ہے۔ ان غزوات میں غزوہ بدر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ غزوہ بدر تمام غزوات کی اصلی بنیاد ہے۔ سامانِ حرب اور عددی قوت و طاقت پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر پختہ یقین اور ایمان رکھنا ہی کامیابی کی دلیل ہے غزوہ بدر بھی اسی ایمانی قوت و عقیدے کا امتحان تھا۔
جہاد بدر کی تاریخ کو دہرارہا ہوں میں
اوراق گذشتہ کا ذرین ورق الٹار ہا ہوں میں
ہجرت کے دوسرے سال بدر کی وہ فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں امت اسلامیہ کی تقدیر اوردعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہوا۔ جس پر پوری نسل انسانی کی قسمت کا انحصار تھا۔ اس کے بعد سے مسلمانوں کو جتنی فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔ اور ان کی جتنی حکومتیں قائم ہوئیں وہ سب اسی فتح مبین کی رہین منت ہیں ۔ جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی اس لئے اللہ تعالی نے اس جنگ کو ” یوم الفرقان ” یعنی (فیصلہ کن دن ) قرار دیا ۔
اس جنگ کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ میں معرکہ آرائی کا سلسلہ جاری تھا۔
قریش نے اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلے راہ حق میں رکا وٹیں ڈالنے اور مسلمانوں کے لئے مختلف قسم کی مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انھوں نے اپنے سارے مالی وسائل اورسامان جنگ اس کے لئے وقف کر رکھے تھے ان کے جنگی دستے مدینے کی چراگاہوں تک پہنچ جاتے تھے۔ اسی دوران قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ جس کے ساتھ تقریبا پچاس ہزار اشرفی کا مال تھا اور 40/30 سے زیادہ محافظ نہ تھے ۔ شام سے مکے کی طرف جاتے وقت اس علاقہ میں پہنچا جو مدینے کی زد میں تھا۔ چونکہ مال زیادہ تھا اور محافظ کم اور سابق حالات کی بنا پر خطرہ تھا کہ کہیں مسلمان کا کوئی دستہ اس پر چھا پہ نہ مار دے۔ اس لئے سردار قافلہ ابو سفیان نے ایک شخص کو پہلے مکہ کی طرف دوڑایا تا کہ وہاں سے مدد لے کر آئے ۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی قدیم رواج کے مطابق شور مچانا شروع کر دیا کہ اے قریش والوں اپنے قافلے تجارت کی خبر لو – محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کےساتھی اس کے پیچھے پڑ گے ہیں دوڈو، دوڈو مدد کے لیے دوڈو کیونکہ تجارتی قافلے میں مکہ کے تمام بڑے بڑے سرداروں کا سامان تجارت تھا اس لیے اس دہائی کو سن کر مکہ میں ہیجان برپا ہوگیا قریش کے تمام بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہوگے ایک ہزار سے زیادہ کا لشکر مسلمانوں پر چڑھائی کے لیے نکل پڑا ان کا ارادہ یہی نہیں تھا کہ قافلے کو بچائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اب مسلمانوں کا صفایا ہی کر دیں تاکہ یہ آئے دن کا خطرہ ہی ختم ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر کی خبر ملی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ایک مجلس مشاورت طلب کی پوری بات مہاجرین و انصار کے سامنے رکھ دی اللہ کے ان بندوں نے پورے عزم و ہمت کے ساتھ ہر مصیبت اور سختی کو جھیلنے اور مخالفت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اس وقت مسلمانوں کی کل تعداد 313 تھی۔ فرزندان اسلام نے محض خدا کے دین کو بچانے کیلئے پہلی بار انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں کوچ کیا۔ پوری فوج میں صرف دو (۲) گھوڑے اور ستر (۷۰) اونٹ تھے۔ اللہ ! اللہ ! کتنا زبردست اعتماد تھا اللہ پر ، کیسا جوش ایمانی تھا کہ قلت تعداد اور کمی ساز و سامان کے باوجود بہت بڑے اور طاقتور دشمن کے لشکر سے مقابلہ کرنے جا رہے تھے۔ اسی لئے تو کسی شاعر نے کیا خوب کہا
نہتے تین سو تیرہ بشر ذوق شہادت میں
خدا کے نام پر نکلے محمدؐ کی قیادت میں
نہ کثرت تھی نہ شوکت تھی نہ کچھ سامان رکھتے تھے
فقط اخلاص رکھتے تھے فقط ایمان رکھتے تھے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کے ساتھ وادی بدر کے قریب فروکش ہوئے ۔ ادھر قریشی لشکر بھی بدر کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ ابو جہل کو مسلمانوں سے خصوصاً نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم سے زبردست دشمنی اور حسد تھا۔ یہی تو تھا جس نے دارالند وا میں (نعوذباللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔ اس لئے اس نے تجارتی قافلہ کے بچ جانے پر واپس مکہ جانے کےفیصلے کی سخت مخالفت کی اور جنگ پر مصر رہا۔ اس رات جسکی صبح بدر کی جنگ ہوئی دو باتیں ایسی ہوئیں جو اللہ تعالی کے خصوصی کرم اور تائید الہی کا ثبوت تھیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمانوں کو سکون کے ساتھ نیند آئی اور وہ صبح تازہ دم ہو کر اُٹھے۔ دوسرے اس رات کو بارش ہوئی ۔ بارش ہو جانے سے ریتیلی زمین سخت ہو گئی اور مسلمانوں کے لئے میدان اچھا ہو گیا۔ اسکے بر عکس مشرکین نشیب میں ہونے کی وجہ سے وہاں کیچڑ ہو گیا اور ان کے پاؤں دھسنے لگے۔ اسلامی تاریخ کے زریں صفحات شاہد ہیں کہ عرب کے ریگزار اور سنگلاخ زمین پر مسلمان بے برگ و بار اور تہی دامن تھے۔ اور دوسری جانب تمام تر ہتھیاروں اور سامان حرب سے لیس لشکر جرار حق کومٹانے کی مذموم کوشش کر رہا تھا۔لیکن فرزندان اسلام میں محض کلمہ طیبہ نے جوش و ہمت اور عزم و استقلال پیدا کر دیا تھا۔ ان کی رگوں میں گرم خون بحر بیکراں کی طرح ٹھاٹھیں مارہا تھا۔ انکے دلوں میں دنیا کو تہ وہال کرنے والا اسلامی جوش و خروش برق و باراں کی طرح پل رہا تھا ۔ آغاز جنگ سے قبل اللہ کے نبی نے اپنےہاتھ دعا کیلئے اُٹھائے اور انتہائی عاجزی سے کہنا شروع کیا: ” اے اللہ یہ قریش کے لوگ اپنے پورے غرور و تکبر کے ساتھ آئے ہیں یہ تجھ سے جنگ پر آمادہ ہیں تا کہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کر دیں۔ اے اللہ بس اس وقت تیری وہ مدد آ جائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر اس روئے زمین پرکبھی تیری بندگی نہ ہوگی بارگائے خداوندی میں یہ دعا اس وقت نبی کریم صلی علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئی جب نہتے اہل اسلام،حق و باطل اور کفر و اسلام کی پہلی جنگ میں مصروف تھے۔ کفر و اسلام کی یہ پہلی حیرت انگیز جنگ بدر کے مقام پر لڑی گئی۔ بدر صرف تین حروفوں کا مجموعہ اس چھوٹے سے لفظ کی کیا اہمیت تھی۔ ایک غیر معروف مقام مگر اس جنگ نے اس مقام کو تاریخ اسلام اور تاریخ عالم میں اہم مقام دلا دیا ۔ کہ جس طرح خود یہ معرکہ شہرت دوام حاصل کر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے مسلمانوں کو جنگ میں پہل کرنے سے منع کیا۔ عرب کی رسم کے مطابق کفار نے حملہ میں پہل کی۔ مسلمانوں نے حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دفاعی موقف اختیار کیا ۔ حضرت علی، حضرت حمزہ ، اور دیگر صحابہ کرام مردانہ وار دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ معرکہ آگ و خون گرم ہوا۔ تلواریں تیزی سے چلنے لگیں۔ معاندین اسلام کی طرف سے مسلسل یورش بجلی کی طرح کو ندتی ہوئی تلواریں، نیزہ و سنان کی لگاتار بارش، دشمن کے تابڑ توڑ حملوں نے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی۔ اس موقع کیلئے شاعر مشرق نے فرمایا ہے۔
کا فر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ظالم و جابر طاقتیں انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھیں لیکن وہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں کی طاقت کے آگے بے بس ہو گئے۔ خود حضور” صحابہ کے جلو میں بہ نفس نفیس جنگ میں اتر پڑے۔ آپ نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جسکے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ آج جو بھی میدان میں ڈٹا ر ہے گا ۔ اللہ سے ثواب کی امید رکھ کر جنگ کرے گا اور پیٹھ نہیں پھیرے گا تواللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان جنگ میں دیکھ کر اور آپ کی محبت میں صحابہ کو مردانہ وارلڑتے دیکھ کر گھبرا اُٹھے۔ صحابہ تیز و تند آندھی کی طرح بڑھے۔ عقاب کی مثل جھپٹے۔ جو سامنے آیا اسکو تہ تیغ کرتے ہوئے زور و شور سے آگے بڑھے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ سخت امتحان یہ تھا کہ ان کے اپنے باپ، بھائی ، بیٹے، چاچا، ماموں اور رشتے دار انہی کی تلوار کی زد میں تھے اور ان کو اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کاٹنا پڑ رہا تھا۔ اس سخت امتحان میں وہی لوگ ٹھہر سکتےتھےجنھوں نے سچے دل سے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ جن رشتوں کو اس نے جوڑا ہے وہ بس ان ہی کو جوڑیں گے۔ اور جن کو اس نے کاٹنے کا حکم دیا ہے ان کو کاٹ پھینکیں گے۔ چاہے وہ رشتے ان کو کتنے ہی عزیز کیوں نہ ہو۔ ایمان کا یہی وہ مقام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد اللہ کی مدد آتی ہے اور ضرور آتی ہے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں بھی اللہ تعالی نے ان کمزور ۳۱۳ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ اور ان کے مقابلے میں ایک ہزار سے زائد کے لشکر کو ایسی شکست ہوئی کہ قریش کی ساری قوت ہی ٹوٹ گئی۔ اس جنگ میں قریش کے تقریبا ستر (۷۰) افراد مارے گئے اور اتنے ہی قید ہوئے ان مارے جانے والوں میں شیبہ، عتبہ، زمعہ، عاص، امیہ، ابو جہل وغیرہ خاص طور قابل ذکر ہیں۔ ابو جہل کا غرور و تکبر اس جنگ میں پارہ پارہ ہوا۔ وہ جتنا بڑا سردار تھا اتنی ہی ذلت کی موت نصیب ہوئی کہ اسلامی فوج کے دو کم عمر نوجوان معاذ اور معوذ نے اُسے خاک و خون میں ڈبو دیا۔ ابو جہل کی لاش دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہ اس اُمت کا فرعون تھا ۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے کل چودہ افراد شہید ہوئے ۔ غنائم اکھٹے کر لینے اور قیدیوں کو پایہ زنجیر کرنے کے بعدکفار کی لاشوں کو نبی کریم کے حکم سے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ اسطرح بدر کا یہ معرکہ مسلمانوں کیلئے بہترین نتائج کا عظیم الشان اور دشمنان اسلام کیلئےرسوا کن اور عبرتناک شکست کے ساتھ انجام کو پہنچا۔ کون جانتا تھا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک قلیل تعداد اور بے سرو سامان جماعت کیلئے فتح و کامرانی اور دوسری کثیر تعداد جماعت کیلئے ذلت و ہزیمیت اور ہمیشہ کی پستی مقدر ہے؟ یہ تاریخ عرب ہی کا نہیں تاریخ عالم کا حیرت انگیز واقعہ تھا۔
كم من فئة قلية غلبت فئة كثيرة باذن الله .
(ترجمہ) بسا اوقات قلیل جماعت اللہ کی مرضی سے کثیر جماعت پر غالب آجاتی ہے۔