اس اجلاس میں درج ذیل اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی۔۔
اُمید ہے کہ ائمہ کرام،مؤذنین وذمہ داران مساجد ضرور متوجہ ہونگے۔lائمہ مساجد ومؤذنین عظام کی ذمہ داری ہے کہ اوقات سحروافطارمیں یکسانیت کا اہتمام فرمائیں۔اس کے لیے مجلس علماء وائمہ مساجد کے زیر اہتمام مرتب کردہ دائمی تقویم اور نقشہ اوقات سحر و افطار کو متفقہ طور پر رہنما قرار دےکر اسی کی پابندی کریں۔
یکسانیت کے لیے ایک علاقے کی مساجد کے ائمہ وذمہ داران آپس میں مشاورت کے بعد کوئی لائحہ عمل طے فرمالیں۔ lمساجد کے انتظامی وشرعی اُمور, اوقات اذان ونمازاورخاص طور پر فجروعشاء کےاوقات کے سلسلے میں بعض مساجد میں جاری بے اعتدالی کے بارے میں ٹرسٹیان و ذمہ داران حضرات شریعت و سنت کو پیش نظر رکھیں۔حنفی مساجد میں فقھاء احناف کی ترجیحات پر عمل سنت سے قریب ہے,اس بارے میں جید و معتبر علماء و مفتیان کرام کی رہنمائی طلب کریں۔نیز اپنی مساجد کے ائمہ کو اعتماد میں لیکر کام کریں، کچھ مخصوص و اہل ثروت مصلیان کی ایماء پر مساجد کا نظام چلانے سے گریز کریں۔
خاص طور پر اوقات اذان و نماز کے سلسلے میں شرعی احکام و مسنون اوقات کا التزام کریں۔صرف مصلیان کی کثرت کو مدنظر رکھ کر شریعت و سنت کو پس پشت ڈالنا انتہائی نامناسب اور غلط طرزعمل ہے۔ائمہ کرام بھی شریعت و سنت کو مقدم رکھیں ، اور اسی اعتبار سے ذمہ داران و مصلیان کی ذہن سازی کریں،
تاکہ مساجد کے نظام میں ذاتی اغراض کا کوئی دخل نہ ہو۔ lصفوں میں بے ترتیبی اوردرمیان میں خلاء رہ جانے کا سنگین گناہ عام ہورہا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصلیان سرے سے صفوں میں کھڑے رہنے کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔ناہی انہیں اس بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے،جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ تعالی علیہ وسلم نے تاکیدی طور پر صفوں کی ترتیب اور مصلیوں کو آپس میں مل مل کرکھڑے رہنے کے بارے حکم فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر خود بھی صفوں کی درستگی فرمایا کرتے تھے۔صفوں کی نادرستی اور درمیان میں خلاء رہ جانے پر وعید کے اثرات یعنی آپس کے اختلافات بالکل واضح نظر آرہے ہیں۔
ائمہ کرام اس کی خصوصی فکرفرمائیں اور عملی طور درستگی کا التزام رکھیں۔خطباء,واعظین اور مضمون نگاران بھی اس اہم امر کی جانب لوگوں کو متوجہ کریں۔ lہماری مساجد میں نوجوان طبقہ سر کھول کر نماز پڑھنے کا عادی ہورہا ہےاور یہ صرف بطور فیشن کے ہورہا ہے،یا بلا تحقیق دیکھی دیکھا کیا جارہا ہے،جبکہ یہ بات محقق ہے کہ کھلے سر نماز پڑھنا خلاف سنت ہے۔اس لیے اس پر بھی قدغن لگانے کی سخت ضرورت ہے۔ lویسے تو سنتوں کو ترک کرنے کی عادت زندگی کے ہرشعبے میں عام ہوتی جارہی ہے،لیکن نمازوں کی سنتوں سے زیادہ غفلت اور بے توجھی برتی جارہی ہے ،
نتیجتاً نمازوں کے مسنون اوقات کا خیال نہ رکھنا،قبلیہ و بعدیہ سنتوں میں کوتاہی،رکوع وسجود اورقیام و قعود خصوصاًقرأت کی سنتوں سے روگردانی کی جارہی ہے ، قرأت کی مسنون مقدار، جو سورہ حجرات تا سورہ بروج فجروظہرمیں،سورہ بروج تاسورہ بینہ عصروعشاءمیں اور سورہ بینہ تا سورہ ناس مغرب میں، اس کےعلاوہ جمعہ ودیگرنمازوں میں سنت قرات کو ایسا ترک کردیا گیا ہے کہ جو ائمہ کرام اس کا التزام کرتے ہیں اُن پر نکتہ چینی کی جاتی ہےاور اس کے علاوہ درمیان سے پڑھنے پر مداومت کی جارہی ہے،جس کی وجہ سے مسنون قرأت کا مستقل ترک لازم آرہاہے۔
مؤدبانہ گذارش ہیکہ ائمہ کرام اس طرف توجہ فرمائیں اور اوقات نماز سے لیکر مکمل نماز میں سنتوں کا لحاظ فرمائیں ،ان شاء اللہ سنتوں سے غفلت کے اس زمانے میں سنتیں زندہ کرنے پر کئی سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔lبعض مساجد سے نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے ہی اذان کی آواز شروع ہوجاتی ہے،یاد رہے کہ اگرکسی نماز کے وقت کے داخل ہونے سے پہلے اذان دے دی گئی تو اس نماز کی ادائیگی اذان جیسی عظیم الشان شعار اسلام سے خالی شمار کی جائے گی،
اس معاملے میں ضد یا ہٹ دھرمی اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔lسال بھر منصب امامت واذان کا اہتمام کرنے والے ائمہ کرام ومؤذنین کا ویسے تو سال بھر اکرام کرنا چاہیے لیکن کم ازکم سال میں ایک مرتبہ پورے خلوص کے ساتھ ھدایا و تحائف سے نوازنا چاہیے۔
اس سلسلے میں خاموشی سے ائمہ ومؤذنین کی خدمت کرنا ہماری اخلاقی وشرعی ذمہ داری ہے۔lاخیر عشرہ میں مسنون اعتکاف کیاجاتا ہے،جو سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی بستی اور محلہ میں سے کم از کم ایک بالغ مرد کا مسجدِمحلہ میں اعتکاف کرنا ضروری ہے ورنہ محلے اور بستی کے لوگ گنہ گار ہونگے،بعض مرتبہ معتکفین کی ذرا سی بے توجھی سے اعتکاف فاسد ہوجاتاہے۔اس لیے ائمہ کرام معتکفین کو مسجد شرعی کی حد اوردیگر مسائل اعتکاف سے واقف کرادیں تاکہ ہمارے ذریعے اس عظیم سنت کی ادائیگی بہترطریقے پر انجام پاسکےاور معتکفین کا اعتکاف فاسد نہ ہو۔
شائع کردہ:-مجلس علماء وائمہ مساجدشہرمالیگاؤں