میں مسلک اعلی حضرت پر منضبط ایک ایسی تنظیم ہوں جس کی روش روش پر حضرت صوفی غلام رسول قادری صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی کشت ریزی سے گلہائے رنگا رنگ رقصاں و بہاراں کئے ہیں. حضور صوفئ ملت نے ہی میرے سر پر اپنا دست شفقت رکھتے ہوئے مجھے جہان رنگ و بو سے آشنائی بخشی ہے. انھوں نے ہی میرے دھڑکتے سینے پر اپنے ہی ہاتھوں آل انڈیا سنی جمعیت الاسلام کی ایسی تختی آویزاں کی ہے جس کی بدولت سنیت کے چراغوں میں ضو فشانی ہی ضوفشانی ہے. مسلک اعلی حضرت کی یہی وہ تنظیم ہے جس نے بنتے بگڑتے حالات میں سنیت کو فروغ و استحکام عطا کیا ہے.
ایسا نہیں ہے کہ صوفئ ملت نے صرف اور صرف سنیت کے فروغ و استحکام کیلئے اپنے عزم و ارادوں اور حوصلوں کو بروئے کار لایا ہے بلکہ جب جب جہاں جہاں انھیں آواز دی گئی وہ فورأ سے پیشتر وہاں پہنچے اور حلقۂ دیگراں کی تکالیف کا یوں ازالہ کیا کہ سارے گلے شکوے یوں دور ہوئے جیسے وہ جہاں بھی گئے وہ کوئی پرائے نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی ہوں. قوم و ملت پر جب بھی ریشہ دوانیوں کا جال پھینکا گیا انھوں نے اپنی مساعئ جمیلہ سے ان کا سدباب یوں کیا کہ سبھی مخالفین انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے.صوفئ ملت کا انداز خطابت اور قد و قامت غضب کی اٹھان لئے ہوئے ایسا رہا تھا کہ جو بھی انھیں دیکھ لیتا یا ان سے ملاقات کر لیتا مرعوب ہو کر رہ جاتا تھا. 2006 کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے بے گناہ مسلم نوجوانوں کی با عزت رہائی کے لئے گلی سے دلی تک ایک کر دینے والی مخلص و ملنسار شخصیت صوفئ ملت کے علاوہ آج تک دوسری منظر عام پر نہیں آئی ہے.
غضب کا حافظہ رکھنے والے صوفئ ملت اپنی پر جوش خطابت کی وجہ سے بھی ہر مکتبہ فکر کے افراد کے منظور نظر رہے تھے. بیک وقت کئی ایک سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کی تشہیر کا فریضہ جب وہ انجام دینے پر آتے تو انھیں دیکھنے اور سننے والا اس پریشانی میں مبتلا ہو جاتا تھا کہ وہ کس پارٹی کے امیدوار کی تشہیر کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں. ان کا اولین مقصد مسلک اعلی حضرت کی ترویج و ترقی و پاسداری نہیں بلکہ وہ اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی کی حیثیت سے بھی متحرک و فعال رہے تھے. ان کی اسی اختراعی ذہنیت کی غماز کل جماعتی تنظیم کی تشکیل بھی کہلاتی ہے. کل جماعتی تنظیم کے ذریعے صوفئ ملت نے مختلف الخیال متعبر مسلکی نمائندوں کو مجتمع کرکے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ اتنے دھندلے اور آسان نہیں ہیں کہ انھیں آسانی سے فراموش کردیا جائے.
موصوف کی ہمہ جہت و ہمہ صفات خدمات کا احاطہ کرنے کے لیے طویل وقت اور طویل عمر درکار ہے تو ان کی بے مثال و بےلوث خدمات کا چند لفظوں چند سطروں میں اظہار کردینا کاسے میں انا ساگر کو سیمٹ لینا کہلائے گا.مسلک اعلی حضرت کے پیروکار اور سلسلہ قاردیہ و شطاریہ کے نقوش تابندہ کو اپنا مقصد حیات بنا لینے والے صوفی ملت نے جب درگاہ حضرت معصوم شاہ کے آستانے کو نئے رنگ و روغن سے آشنائی بخشی تو پھر یوں ہوا کہ دارالعلوم اہلسنت فیض القران بینا و نابیناؤں کا مدرسہ کے علاوہ دختران ملت کو علوم دینیہ سے آشنا کرنے کے لیے مدرسہ عائشہ اللنبات کی نہ صرف بنیاد گزاری کی بلکہ ایسے معصوم یتیم خانہ کی داغ بیل بھی ڈالی جہاں نہ صرف طلباء بلکہ طالبات کے لیے بھی علوم دینیہ کی ہمراہی میں قیام و طعام کا مکمل اہتمام کرتے ہوئے ان کی تمام تر کفالت کا بھی بار گراں یوں اٹھایا کہ اگر کوئی ان کی مخالفت پر آمادہ بھی ہوا تو اسے شرمندگی کا شکار ہونا پڑا .صوفئ ملت نے جب تحفظ مزارات کی جانب پیش رفت کی تو شہر مالیگاؤں ہی نہیں بلکہ قرب و جوار میں موجود بندگان خدا کے خستہ حال مزارات کی از سر نو تجدید و مرمت کا مخلصانہ فریضہ انجام دینے کی کوشش کی جیسے وہ اللہ کے ولیوں کے آستانے کی مرمت و درستی نہیں بلکہ اپنے ذاتی مکان کو رنگ و روغن اور مرمت و درستی سے آشنائی بخش رہے ہوں. شہریت ترمیمی ایکٹ کے احتجاج میں منعقدہ شاہین باغوں کے مظاہرین پر جب بھی قانون و عدلیہ نے یورش کرنے کی کوشش کی صوفئ ملت احتجاج پر آمادہ مظاہرین اور قانون و عدلیہ کے مابین کسی آہنی دیوار کی طرح یوں سینہ تانے آن موجود ہوئے کہ قانون و عدلیہ کو پسپائی اختیار کر کے پیچھے ہٹنا پڑا .شہر میں آنے والا ہر نیا پولیس آفیسر نہ صرف ان سے گفت و شنید اور ملاقات کا متلاشی رہا کرتا تھا بلکہ ان کے قائم کردہ دارالعلوم اہلسنت فیض القران بینا و نابیناؤں کا مدرسہ کے ساتھ ساتھ حضرت معصوم شاہ کے آستانے کے طواف کا بھی متمنی رہا کرتا تھا. مفلوک الحال بے بضاعتوں کی داد رسی کرنا صوفئ ملت کا وطیرہ خاص رہا تھا. اخباری نمائندوں کی خبر گیری رکھنا ان سے اپنے تعلقات استوار رکھنا صوفئ ملت کا محبوب مشغلہ رہا تھا. مالیگاؤں شہر ہی نہیں بلکہ قرب و جوار اور دور دراز کے علاقوں میں بکھرے ہوئے ہزارہا مریدین صوفئ ملت سے وابستہ رہنے کو ہمہ وقت تیار رہا کرتے ہیں. آج بھلے ہی انھوں نے اپنا مسکن خلد بریں میں تعمیر کر لیا ہو لیکن ان کی متحرک و فعال شخصیت آج بھی ہمارے اپنے درمیان اپنے تمام تر نظریات سمیت فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی یادوں کے چراغوں کو یوں ضوفشاں کئے ہوئے ہیں کہ آتی جاتی طوفانی ہوائیں بھی اس کی ضوفشاں لو کو بجھانا تو کجا مدھم کرنے سے عاجز و محروم ہے. چار برس بیتے صوفی ملت کو خلد بریں کا مکیں ہوئے لیکن ان کا کاز ان کا مشن آج بھی اول دن کی طرح کامیابی سے جاری و ساری ہے کیونکہ آج ان کے قائم کردہ دارالعلوم اہلسنت فیض القران بینا و نابیناؤں کا مدرسہ اور مدرسہ عائشہ اللنبات کے ہمراہ معصوم یتیم خانہ بھی اپنی تمام تر آب و تاب کے ہمراہ اسی طرح کامیابی سے جاری ہے جیسے وہ اوپر آسمانوں سے دیکھ رہے ہوں کہ کہیں کسی سے کوئی لاپرواہی یا غفلت تو نہیں ہورہی ہے. ان کی یادیں تا ہنوز ہمارے قدم بہ قدم یہ کہنے پر مجبور کئے جارہی ہیں کہ......
ایک یاد ہے کہ دامن دل چھوڑتی ہی نہیں
ایک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر جاں کے ساتھ
...خراج عقیدت منجانب....
آل انڈیا سنیّ جمعیت الاسلام مالیگاؤں
مخدوم صابر اکیڈمی مالیگاؤں
بینا نابیناوں کا مدرسہ دارالعلوم اہلسنت فیض القرآن
لڑکیوں کا مدرسہ عائشہ للبنات معصوم یتیم خانہ
درگاہ حضرت معصوم شاہ ٹرسٹ
درگاہ حضرت بھیکن شاہ ٹرسٹ
مرکز روحانیت خانقاہ امدادیہ
عباسیہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی مالیگاؤں